17 July 2022
(All research and photos by the author)
In the tranquil northern suburbs of Lahore, the
historic town of Shahdara beckons travelers as they traverse the mighty River
Ravi. Throughout the ages, Shahdara has served as the grand entrance gateway to
Lahore, captivating the attention of Mughal emperors and leaving behind a
legacy of architectural marvels. Its enchanting allure lies in its ancient
Mughal gardens, remarkable structures, and the renowned Tomb of Jahangir, a
resting place for the illustrious Mughal Emperor, his beloved Empress Nur
Jehan, and his esteemed brother-in-law, Abdul Hasan Asaf Khan.
As the grandeur of these historical monuments took
shape, Shahdara town blossomed, expanding its horizons. Prior to the partition
of 1947, this vibrant community embraced a tapestry of diverse religious
beliefs, fostering an atmosphere of harmony and unity.
Deep within the heart of Shahdara town lies a
neighborhood known as 'Pari Mohalla,' which has endured the test of time.
Before the partition, it was inhabited by the Khatri clan of the Hindu
community, who graced the area with their presence. The Khatri community left
an indelible mark, constructing splendid residential buildings adorned with
elegant architectural elements. At the entrance of this neighborhood, they
erected a temple complex, serving as a sacred space for Hindu rituals and
religious observances.
The temple complex comprises a single-story square
structure known as the "Sanctum," designed to house the divine deity.
Rising from the square sanctum is the temple's curvilinear spire, a prominent
feature found in many northern Indian shrines. The curvilinear spire, also
known as a tower or sikhara, is meticulously crafted using small bricks,
distinct from those used in the temple's ground floor. Adorning the external
walls of the temple are double facets and vertical offset projections, known in
Hindu temple architecture as "ratha."
Regrettably, the temple now stands in a state of
profound decay. Following the partition, migrant families settled in the area,
leading to the gradual deterioration of its architectural elements and
textures, which have since been defaced and plastered over.
شاہدرہ کا تاریخی قصبہ لاہور کے شمالی مضافات میں واقع ہے اور دریائے راوی کو عبور کرکے وہاں پہنچ سکتا ہے۔
15ویں صدی میں یہ لاہور اور مغل بادشاہوں کا داخلی دروازہ تھا۔ یہ بنیادی طور پر تاریخی مغل تعمیراتی مقامات، مغل باغات اور مغل شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے، ان کی اہلیہ مہارانی نورجہاں اور ان کے بہنوئی عبدالحسن آصف خان کے لیے مشہور ہے۔
ان تاریخی یادگاروں کی تعمیر کے بعد شاہدرہ شہر میں بھی وسعت آنا شروع ہوگئی اور 1947 کی تقسیم سے قبل یہاں تمام مذاہب پر مشتمل متنوع کمیونٹی موجود تھی۔
شاہدرہ شہر میں 'پڑی محلہ' کے نام سے ایک محلہ اب بھی موجود ہے۔ تقسیم سے پہلے 'پاری محلہ' میں ہندو برادری کا کھتری قبیلہ رہتا تھا۔ انہوں نے شاندار تعمیراتی عناصر پر مشتمل کچھ حیرت انگیز رہائشی عمارتیں تعمیر کیں۔ ہندو رسومات اور مذہبی فرائض کی انجام دہی کے لیے کھتریوں نے اس محلے کے دروازے پر ایک مندر کا کمپلیکس بنایا۔
مندر ایک منزلہ مربع "سینکٹم" پر مشتمل ہے جسے دیوتا رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ مربع حرم کے ڈھانچے سے مرکزی مندر کا منحنی اسپائر (ٹاور، سکھارا) اٹھایا گیا ہے، جو کہ شمالی ہندوستانی مزارات (لاطینی) کی ایک عام قسم ہے۔ منحنی اسپائر کی تعمیر کے لیے اینٹوں کے چھوٹے سائز کا استعمال کیا جاتا ہے جو مندر کے زیریں منزل سے مختلف ہیں۔ مندروں کی بیرونی دیواروں پر، آپ کو دوہرا پہلو اور عمودی آفسیٹ پروجیکشن نظر آئے گا۔ ہندو مندر کے فن تعمیر میں اسے "رتھا" کہا جاتا ہے۔
اس وقت مندر انتہائی خستہ حالی میں ہے، تقسیم کے بعد نقل مکانی کرنے والے خاندان یہاں آباد ہوئے۔ زیادہ تر آرکیٹیکچرل عناصر اور ساخت خراب اور پلستر شدہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 'پاری محلہ' کا یہ ہندو مندر پورے شاہدرہ ٹاؤن میں واحد ہندو مندر تھا۔