A Brief Opening in the Sky
They wait — quietly — across years.
It is one you commit to.
The home of four 8,000-meter mountains.
Longer than the distance alone can measure.
Ice underfoot.
Stone in the lungs.
Silence pressing inward,
until even breath felt deliberate.
like an undeniable truth.
as if the world had decided to withhold its answer.
and stood alone.
without strategy,
without restraint.
That I had given time, effort, certainty.
That I did not know
if my body or my life
would ever bring me here again.
I cried openly, deeply —
as if grief and hope
had finally found the same voice.
standing at the threshold of this place,
and that leaving without seeing the mountain
would leave something unfinished within me.
No demand.
almost imperceptibly —
The sky shifted.
The clouds began to loosen their hold.
They drifted.
They released.
vast, indifferent, absolute.
Neither welcoming nor cruel.
The mountain revealed itself,
not as a reward,
But as a permission.
aware that this moment
was not meant to be owned.
That night, rain closed the sky again.
For days afterward, the mountain vanished.
the moment when the effort ended
and acceptance took its place.
When standing small
felt neither weak nor afraid.
that some things appear
only when the pursuit dissolves.
That some answers arrive
not as explanations,
but as brief openings.
“In that stillness, it felt as though the universe had paused to listen.”
But something within me had settled.
I had seen enough — not just of K2, but of myself.
as if some moments are met not with answers, but with presence.
I left something of myself there instead.
not with possession, but with quiet understanding.
آسمان میں ایک مختصر سا شگاف
کچھ خواب اچانک نہیں آتے۔
وہ برسوں خاموشی سے انتظار کرتے ہیں۔
کافی عرصے تک کے ٹو بیس کیمپ ٹریک کا خیال میرے اندر ایک دھیمی مگر مسلسل صدا کی طرح موجود رہا۔ دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے سامنے کھڑے ہونے کی خواہش کوئی وقتی شوق نہیں تھی؛ یہ زندگی بھر کا خواب تھا — وسعت، خاموشی اور استقامت کو اس کی خالص ترین شکل میں دیکھنے کا خواب۔
نجی شعبے میں کام کرتے ہوئے ایسے سفر کا تصور کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ اٹھارہ دن کی چھٹی لینا تقریباً ناممکن تھا۔ چنانچہ میں نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ میں نے استعفیٰ دے دیا — بے قراری میں نہیں، بلکہ اس یقین کے ساتھ کہ کچھ خواب ہمت سے پہلے جگہ مانگتے ہیں۔
سفر سے کئی ماہ پہلے میں نے خود کو تیار کرنا شروع کیا۔ ہر روز دال کے ریس کورس میں دوڑ لگاتا رہا — جسم کے ساتھ ساتھ اپنے عزم کو بھی مضبوط کرتا رہا۔ مجھے معلوم تھا کہ آگے کیا ہے: تقریباً نوّے کلومیٹر کا یک طرفہ سفر، جس کا بیشتر حصہ بے رحم بالتورو گلیشیئر پر مشتمل ہے — ایسی برف جو قدموں کے نیچے سرکتی ہے، ایسی ہوا جو سانس کو محدود کر دیتی ہے، اور ایسا وقت جو جیسے ٹھہر سا جاتا ہے۔
یہ کوئی ایسا سفر نہیں جسے بس آزمایا جائے۔
یہ وہ سفر ہے جس سے وابستگی درکار ہوتی ہے۔
میرے دل میں ایک خاموش خوف بھی تھا۔ ایک قریبی دوست اس سے پہلے یہی سفر کر چکا تھا۔ وہ چودہ دن کونکورڈیا میں رکا رہا — مگر کے ٹو کو دیکھ نہ سکا۔ پہاڑ بادلوں کے پیچھے چھپا رہا، محنت اور صبر دونوں سے بے نیاز۔
کونکورڈیا
یہ ٹریک کا دسواں دن تھا جب ہم آخرکار کونکورڈیا پہنچے —
وہ عظیم مقام جہاں گلیشیئر آپس میں ملتے ہیں، اور جسے اکثر چار آٹھ ہزار میٹر بلند پہاڑوں کا گھر کہا جاتا ہے۔
مگر وہاں پہنچ کر آسمان بند تھا۔
گھنے بادل وادی پر ایسے چھائے ہوئے تھے جیسے ٹس سے مس ہونے کا کوئی ارادہ ہی نہ ہو۔ موسم میں کسی بہتری کی کوئی امید نہ تھی، کسی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں۔ میں جان گیا تھا کہ ہمیں اگلے ہی دن واپسی شروع کرنی ہوگی۔
وہیں کھڑے کھڑے، وہی خوف پوری شدت سے لوٹ آیا۔
مجھے محسوس ہوا کہ برسوں کی منصوبہ بندی، مہینوں کی تیاری، اور زندگی کی سہولتوں سے دستبرداری — سب کچھ ادھورا رہ سکتا ہے۔
کہ یہ سفر، جسے میں اتنے عرصے سے اپنے اندر اٹھائے پھر رہا تھا، شاید مکمل نہ ہو سکے۔
میں بہت دور سے یہاں آیا تھا۔
اتنا دور کہ صرف فاصلے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
اٹھارہ دن کی مسلسل مسافت۔
پاؤں تلے برف۔
پھیپھڑوں میں پتھر سا بوجھ۔
خاموشی جو اندر تک دباؤ ڈالتی جاتی تھی،
حتیٰ کہ سانس لینا بھی ایک سوچا سمجھا عمل بن گیا تھا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں پہاڑ کو
ایک ناقابلِ تردید حقیقت کی طرح ابھرنا چاہیے تھا۔
مگر آسمان بند تھا۔
بادل وادی میں بھرے ہوئے تھے، گھنے اور ساکن،
جیسے دنیا نے فیصلہ کر لیا ہو
کہ اپنا جواب روک کر رکھے۔
کل ہمیں واپس لوٹنا تھا۔
میں اپنے گروپ سے الگ ہوا
اور تنہا کھڑا ہو گیا۔
اور وہیں، میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا۔
میں نے بے ترتیب بات کی،
بے منصوبہ،
بے روک ٹوک۔
مانگا نہیں —
بس کہا۔
میں نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے سب کچھ کر لیا تھا۔
کہ میں نے وقت دیا، محنت دی، یقین قربان کیا۔
کہ مجھے معلوم نہیں
میرا جسم یا میری زندگی
مجھے دوبارہ یہاں آنے دے گی یا نہیں۔
آنکھیں بھر آئیں۔
میں کھل کر رویا —
یوں جیسے غم اور امید
ایک ہی آواز میں بول اٹھے ہوں۔
میں نے کہا کہ میں اتنا قریب آ کر کھڑا ہوں،
اس مقام کی دہلیز پر،
اور اگر پہاڑ کو دیکھے بغیر لوٹا
تو میرے اندر کچھ ہمیشہ کے لیے ادھورا رہ جائے گا۔
میرے الفاظ میں کوئی سودا نہیں تھا۔
کوئی مطالبہ نہیں۔
بس سچائی تھی۔
پھر —
نہایت خاموشی سے،
تقریباً محسوس نہ ہونے والے انداز میں —
آسمان نے کروٹ لی۔
پہاڑ کی بلند ترین چوٹی سے
بادل اپنی گرفت ڈھیلی کرنے لگے۔
نہ اچانک۔
نہ ڈرامائی انداز میں۔
وہ پتلے ہوئے۔
وہ سرکنے لگے۔
وہ پیچھے ہٹ گئے۔
اور پھر وہ سامنے تھا۔
کے ٹو —
عظیم، بے نیاز، مطلق۔
نہ خوش آمدید کہنے والا،
نہ ظالم۔
بس موجود۔
چند نازک لمحوں کے لیے
پہاڑ نے خود کو ظاہر کیا،
انعام کے طور پر نہیں،
بلکہ اجازت کی طرح۔
میرے ہاتھ کانپ رہے تھے جب میں نے تصاویر لیں،
یہ جانتے ہوئے کہ
یہ لمحہ میرا نہیں ہے۔
ایک گھنٹے کے اندر بادل پھر لوٹ آئے۔
اس رات بارش ہوئی۔
اگلے کئی دنوں تک پہاڑ دوبارہ غائب رہا۔
مگر میں اسے دیکھ چکا تھا۔
جو باقی رہ گیا، وہ منظر نہیں تھا۔
وہ اس کے بعد آنے والا سکون تھا —
وہ لمحہ جب کوشش ختم ہوئی
اور قبولیت نے جگہ لے لی۔
جب خود کو چھوٹا محسوس کرنا
نہ کمزوری لگا، نہ خوف۔
اس دن مجھے یہ سکھایا گیا
کہ کچھ چیزیں
تبھی ظاہر ہوتی ہیں
جب تعاقب ختم ہو جاتا ہے۔
اور یہ کہ کچھ جواب
تشریح کی صورت میں نہیں آتے،
بلکہ مختصر سی جھلک بن کر آتے ہیں۔











.jpg)
Great blog. Make reader feels among you there on this mesmerizing journey.
ReplyDelete